انسانی خواشوں کی آندھی
ھمارے ھاں انسانی رویے کچھ اس طرح کے ھو چکے ھیں جیسے کوی انسان اپنے
خوابوب کی دنیا مین مگن باغبان سے لا پرواہ ھو کر اپنے رنگ روپ کے ناز و
نخرے سے چھپا رھتا ھے یعنی اپنے اصل کو چھپا کر رکھتا ھے۔لیکن آسمان سے بھی
کوی پوشیدہ ھو سکا ھے بھلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنی امیدوں کی بیل کا بیج بو
لیتا ھے اور پھر اسکو پروان چڑھاتا رھتا ھے یا وہ بیل پروان چڑھتی رھتی ھے
اسکو اسکی خبر ھی نھیں ھ...وتی کہ یہ بیل کسی کانٹے دات درخت پر چڑھا رھا
ھے یاکہ کسی سایہ دار درخت کی زینت بنا رھا ھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب ایک مخصوس
وقت اپنی ڈگر پر آگے کی طرف نکلتا ھے اور اس بیل پر سوھنے سوھنے پھول اپنے
نیلے پیلے رنگوں کا امتزاج لیکر ابھرتے ھیں تو پھولوں کو یہ علم ھی نھیں
ھوتا کہ وہ کسی خار دار ٹہنی پر لپٹے جارھے ھیں کیونکہ پھول تو پھول ھوتے
ھین انکی زبان سے نکلنے والے الفاظ تو رنگوں اور خشبوں کی زبان بولتے ھیں
انسانی سوچ کی غلیظ ساخت تو ان میں نھیں ھوتی ھے کوی آواز نھیں ھوتی ان
پھولوں کی سواے معصوم رنگوں کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انسان اپنی خواشوں کا
بوجھ جب اٹھا اٹھا کر تھک جاتا ھے تو بیٹھ کر سواے اپنے من کے جلے کٹے شکوں
کا اظہار ھی کرتا نظر آتا ھے اور ایک تبماکو نوش کی طرح سواے دھواں منہ سے
نکالنے کے سوا اور کچھ بھی نھیں کر پاتا۔ یہ دھواں افسوس کا ھوتا ھے
کیونکہ اسکے ضمیر میں جو دھواں نکل رھا ھوتا ھے وھی اسکے سینے کی جلن بن
جاتا ھے۔
آنسوں اور دھویں کے اس بادل مین گرا ھوا یہ خود غرض لالچی انسان بیج بونے سے قبل زمین کی ساخت کو نھیں پہچانت